Pages

Thursday, July 26, 2012

First Islamic Coins Of This 21st Century (2012)


These are First Islamic coins of this century after a very long time. the malaysian kelentan govt has issued and take a very brave and religious step towards true islamic money. All other Muslim Nations around the globe have must to choose true income and money by the rules of Islam not by fake paper money


According to Islamic Law...

The Islamic Dinar is a specific weight of 22k gold (917.) equivalent to 4.25 grams.

The Islamic Dirham is a specific weight of pure silver equivalent to 3.0 grams.

Umar Ibn al-Khattab established the known standard relationship between them based on their weights: "7 dinars must be equivalent to 10 dirhams."

"The Revelation undertook to mention them and attached many judgements to them, for example zakat, marriage, and hudud, etc., therefore within the Revelation they have to have a reality and specific measure for assessment [of zakat, etc.] upon which its judgements may be based rather than on the non-shari'i [other coins].

Know that there is consensus [ijma] since the beginning of Islam and the age of the Companions and the Followers that the dirham of the shari'ah is that of which ten weigh seven mithqals [weight of the dinar] of gold. . . The weight of a mithqal of gold is seventy-two grains of barley, so that the dirham which is seven-tenths of it is fifty and two-fifths grains. All these measurements are firmly established by consensus." Ibn Khaldun, Al-Muqaddimah


How are the Islamic dinar used?

1.- The Islamic Dinar can be used to save because they are wealth in themselves.

2.- They are used to pay zakat and dowry as they are requisite within Islamic Law.

3.- They are used to buy and sell since they are a legitimate medium of exchange.



Kelantan Islamic Gold Dinar & Silver Dirham

Recent Islamic currency issued by the Government of Kelantan

The World Islamic Mint with the Government of Kelantan has recently issued new Islamic currency in the form of an 8 dinar and 10 Dirham piece, as shown below.

Malaysia has done a very beautiful work and they are going towards Totally islamic money. Masha-Allah. Our so called Muslim-Govts have to demolish fake paper money and try to introduce again the true ISLAMIC MONEY.

Monday, July 23, 2012

Salaat-e-Tauba صلاۃ توبہ




صلاۃ توبہ




نماز توبہ كيسے ادا كى جاتى ہے، اور اس كى كتنى ركعات ہيں، اور كيا يہ عصر كے بعد ادا كى جا سكتى ہے ؟



:الحمد للہ

اللہ سبحانہ و تعالى كى اس امت پر رحمت ہے كہ اس نے توبہ كا دروازہ كھلا ركھا ہے، اور يہ توبہ كا دروازہ اس وقت تك بند نہيں ہوگا جب تك روح نرخرے تك نہ پہنچ جائے، يا پھر سورج مغرب كى جانب سے طلوع نہ ہو جائے



اسى طرح اس امت پر اللہ تعالى كى يہ بھى رحمت ہے كہ اس نے ان كے ليے سب افضل ترين عبادات مشروع كى ہيں، جنہيں اللہ تعالى اپنے اللہ كے ليے وسيلہ بناتا ہے، اور اپنى توبہ كى قبوليت كى اميد ركھتا ہے جو كہ نماز توبہ ہے، اور ذيل ميں اس كے متعلقہ چند ايك مسائل پيش كيے جاتے ہيں



1 - نماز توبہ كى مشروعيت:



نماز توبہ كى مشروعيت پر اہل علم كا اجماع ہے



ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا



 جو كوئى بندہ بھى كوئى گناہ كرے اور پھر اچھى طرح وضوء كر كے دو ركعت نماز ادا كرے، اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت فرمائى



 اور جب ان سے كوئى فحش كام ہو جائےن يا كوئى گناہ كر بيٹھيں تو فورا اللہ كا ذكر،اور اپنے گناہوں كے ليے استغفار كرتے ہيں، يقينا اللہ تعالى كے سوا كون گناہوں كو بخش سكتا ہے ؟ اور وہ لوگ باوجود علم كے كسى برے كام پر اصرار نہيں كرتے 



سنن ابو داود حديث نمبر ( 1521 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے



اور مسند احمد ميں ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا



 جو شخص اچھى طرح پورا وضوء كر كے پھر دو يا چار ركعت ( راوى كو شك ہے ) اچھى طرح خشوع و خضوع اور اللہ كے ذكر سے ادا كرتا اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے 



مسند احمد كے محققين كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 3398 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے



2 - نماز توبہ كا سبب:



نماز توبہ كا سبب مسلمان شخص كا معصيت و نافرمانى كا مرتكب ہونا ہے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ، تو اس سے اسے فورا توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ليے يہ دو ركعت ادا كرنى مندوب ہيں، اور پھر اسے توبہ كے وقت اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كوئى اچھا اور نيك عمل كرنا چاہيے، اور ان اعمال صالحہ ميں سب سے زيادہ افضل نماز ہے، تو اس نماز كو اللہ تعالى كے ہاں اپنا وسيلہ بنا كر يہ اميد ركھنى چاہيے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا، اور اس كے گناہ بخش دےگا



3 - نماز توبہ كا وقت:



مسلمان شخص جب كسى گناہ سے توبہ كرنے كا عزم كر چكے تو اسے اس وقت نماز توبہ ادا كر كے توبہ كرنى چاہيے، اور يہ اس گناہ كے فورا بعد ہو يا دير كے ساتھ اس ميں كوئى فرق نہيں، گنہگار شخص پر واجب ہوتا ہے كہ وہ توبہ كرنے ميں جلدى كرے، ليكن اگر وہ توبہ ميں تاخيركرتا ہے، يا پھر يہ كہے كہ توبہ كر لونگا، اور بعد ميں توبہ كر لى تو اس كى توبہ قبول ہو جاتى ہے، كيونكہ توبہ اس وقت تك قبول ہوتى ہے جب تك درج ذيل امور ميں سے كوئى ايك چيز نہ ہو جائے



1 - جب روح نرخرہ تك پہنچ جائے يعنى نرخرہ بجنے لگے تو توبہ قبول نہيں ہوتى



نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے



 يقينا اللہ تعالى بندے كى توبہ اس وقت تك قبول كرتا ہے جب تك ا سكا نرخرہ بجنا نہ شروع ہو 



علامہ البانى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 3537 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے



2 - جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے تو توبہ قبول نہيں ہو گى



نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے



 جس نے بھى سورج مغرب كى جانب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ كر لى اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرتا ہے 



صحيح مسلم حديث نمبر 
(2703) 



اور يہ نماز ہر وقت ادا كرنى مشروع ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات ( مثلا نماز عصر كے بعد ) بھى شامل ہيں، كيونكہ يہ نماز ان نمازوں ميں شامل ہوتى ہے جو كسى سبب كى بنا پرادا كى جاتى ہے، تو اس كے سبب كے وجود كى بنا پر نماز ادا كرنى مشروع ہو گى



شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں



 اسباب والى نمازوں كو اگر ممنوعہ وقت سے مؤخر كيا گيا تو وہ فوت ہو جائينگى، يعنى رہ جائينگى، مثلا: سجدہ تلاوت، اور تحيۃ المسجد سورج گرہن كى نماز، اور تحيۃ الوضوء كى دو ركعتيں، جيسا كہ بلال رضى اللہ عنہ كى حديث ميں ہے، اور اسى طرح نماز استخارہ اگر كسى شخص كو استخارہ كى ضرورت ہو اور اسے مؤخر كيا جائے تو وہ رہ جائيگا، اور اسى طرح نماز توبہ، تو جب گناہ كرے تو اس پر فورا توبہ كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے مندوب ہے كہ وہ دو ركعت ادا كر كے توبہ كرے، جيسا كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے  انتہى



ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ  23 / 215 



4 - نماز توبہ دو ركعت ہيں، جيسا كہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے



اور توبہ كرنے والے كے ليے اكيلے اور خلوت ميں نماز توبہ ادا كرنا مشروع ہے، كيونكہ يہ ان نوافل ميں سے ہے جن كى جماعت مشروع نہيں، اور اس كے بعد اس كے ليے استغفار كرنا مندوب ہے، اس ليے كہ ابو بكر رضى اللہ كى حديث سے ثابت ہے



اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ان ركعتوں ميں كوئى مخصوص سورتيں پڑھنا اور مخصوص اذكار ثابت نہيں، اس ليے وہ جو چاہے قرآت كر سكتا ہے



اور نماز توبہ كے ساتھ توبہ كرنے والے كے ليے مستحب ہے كہ وہ نيك اور صالحہ اعمال كرے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے



 اور ہاں يقينا ميں انہيں بخش دينے والا ہوں جو توبہ كريں اورايمان لائيں اور نيك عمل كريں، اور راہ راست پر بھى رہيں طہ:  82 



اور توبہ كرنے والے كے ليے نيك اور صالحہ اعمال ميں سب سے افضل عمل صدقہ ہے، كيونكہ صدقہ گناہوں كو مٹانے والے اسباب ميں سب سے بڑا اور عظيم عمل ہے



اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے



 اگر تم صدقہ و خيرات ظاہر كرو تو وہ بھى اچھا ہے، اور اگر تم اسے پوشيدہ پوشيدہ مسكينوں كو دے دو تو يہ تمہارے حق ميں بہتر ہے، اللہ تعالى تمہارے گناہوں كو بخش دےگا 
البقرۃ:  271 



اور كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب اللہ تعالى نے ان كى توبہ قبول كى تو وہ كہنے لگے



اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى توبہ ميں شامل ہے كہ ميں اپنا سارا مال اللہ اور اس كے رسول كے ليے صدقہ كردوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا



" اپنا كچھ مال ركھ لو، يہ تمہارے ليے بہتر ہے "



تو وہ كہنے لگے: ميں اپنا خيبر والا حصہ روك ليتا ہوں 



متفق عليہ



تو خلاصہ يہ ہوا كہ



نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز توبہ ثابت ہے



 يہ نماز مسلمان كے ليے مشروع ہے جب بھى وہ كوئى گناہ كرے اور اس سے توبہ كرنے ليے نماز توبہ ادا كرے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ اور چاہے گناہ كے فورا بعد توبہ ہو يا كچھ مدت گزرنے كے بعد



نماز توبہ ہر وقت ادا كى جا سكتى ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات بھى شامل ہيں



 توبہ كرنے والے كے ليے نماز توبہ كے ساتھ ساتھ اللہ كے قرب والے دوسرے اعمال بھى كرنے مستحب ہيں، مثلا صدقہ وغيرہ



اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ا نكى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے



واللہ اعلم

Thursday, July 5, 2012

Tilawat-e-Quran Ne Ek Communist Kay Aansu Baha Diye

                   تلاوت قرآن نے ایک کوممنسٹ کے آنسو بہا دئے




Tuesday, July 3, 2012

Fasting In The Month Of Shabaan

by ღ Dars e Rohaniyat ღ


Introduction :
It is admitted fact that every moment, second, minute, hour, day or night that is spent in the submission of Allah Almighty and His Beloved Prophet (SAW) is exceedingly meaningful and precious. But there are some days, nights and months which have their own weight and Allah, the compassionate, lays immense stress upon them to unveil their importance to people.

What is Shabaan ?
Among those months, those hold much importance is Sha’ban and the holy month of Ramadhan, The Holy Month of Sha’ban is one of the blessed months that holds much too for us from the mercy, compassion and kindness of Allah Almighty. Sha’ban is the name of the (eigth) month of the Islamic lunar calendar, and it is so called because in this month the Arabs used to disperse (tasha’aba) in search of water, or it was said that it is so called because it sha’aba (branches out or emerges) i.e., it appears between the months of Rajab and Ramadan.

Fasting Entire month of Shaban ?????
‘A’ishah (may Allah be pleased with her) said: “The Messenger (peace and blessings of Allah be upon him – PBUH) used to fast until we thought he would never break his fast, and not fast until we thought he would never fast. I never saw the Messenger of Allah fasting for an entire month except in Ramadan, and I never saw him fast more than he did in Sha’ban.” (Narrated by al-Bukhari and Muslim).

She also narrated “Shaban was the most beloved month to Allah’s Prophet to fast in it till the beginning of Ramadan” [Declared Authentic by Al-Albani]

A group of scholars, including Ibn al-Mubarak and others, thought that the Prophet did not fast all of Sha’ban, but he fasted most of it. This is supported by a report in Saheeh Muslim narrated from ‘A’ishah (may Allah be pleased with her), who said: “I never knew of him – meaning the Prophet (PBUH) – fasting for any entire month apart from Ramadan.”

According to another report also narrated by Muslim, A’ishah said:“I never saw him fast for any entire month from the time he came to Madeenah, apart from Ramadan.”

It was reported in al-Bukhari and Muslim that Ibn ‘Abbas said: “The Messenger of Allah (PBUH) did not fast any entire month apart from Ramadan.” Ibn ‘Abbas regarded it as makrooh (disliked) to fast any entire month apart from Ramadan. Ibn Hajar (may Allah have mercy on him) said: “He observed more voluntary fasts in Sha’ban than in any other month, and he used to fast most of Sha’ban.”